لوگ کیا کہیں گے؟

بچپن ہی سے ہمیں اس فکر کی خاص طور پر عادت ڈالی گئی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اُس وقت تو ہمیں اِس محاورے کی کچھ سمجھ نہ آ سکی مگر جیسے ہی ہم نے کچھ ہوش سنبھالا، تو ہم نےاس کو سمجھنے کی ناکام کوشش شروع کر دی۔ آخر بہت سوچ بیچار کے بعد ہمارے ناتوان ذہن نےاِس قاعدے کی تعریف کچھ اس طرح سمجھی کہ آپ کا کوئی بھی خودغرضانہ و بے لوثانہ فیصلہ یا عمل جس کے نتیجے میں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے اوران کی زبان سے بے ساختہ کلمات، دل میں ناگواری کے خیالات، یا چہرے پر ناگواری کے احساسات نکلنے لگ جائیں، لوگوں کا کہنا کہلاتا ہے۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ ہم دودھ لینے کی غرض سے جگ لیے دروازے کی طرف بڑھنے ہی والے تھے کہ ہماری والدہ نے ہمیں ٹوکا اور کہا کہ ڈول لے کر جاؤ وگرنہ دودھ والا کیا کہے گا؟ ہم نے یہ سُن کر جب بیچارے دودھ والے کے بارے میں سوچا تو ہمیں اپنے آپ سے بہت شرم محسوس ہوئی۔ وہ غریب کے جو دن رات خون پسینے سے اپنا گزر بسر پورا کرتا ہو، اسے ڈول کی جگہ جگ دے کر اُس کے جذبات سے کھیلنے کا حق ہمیں نہیں پہنچتا۔

غرض یہ کہ کوئی بھی کام کرتے ہوئے اس بات کا بہت خیال رکھا جائے کے آس پاس کے لوگوں سے لیکر اجتماعی معاشرے کے کسی بھی فرد کے کسی بھی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اب کسی کا دل دکھانا تو بہت ہی بری بات ہے۔ مگر یہ الجھن بہرحال ابھی باقی تھی کہ یہ لوگ آخر ہیں کون کونسے؟ اور انکا تعلق آخر زندگی کے کن شعبوں سے ہے۔

ابھی ہم ہیں نکتے پر غور و فکر جاری کیے ہی ہوئے تھے کے جمعے کا دن آ گیا۔ ہمیں یاد ہے اُس وقت بھی ہمارے محلے میں لوگوں کے مکتب فکر کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے حسبِ معمول مساجد ضروت سے زیادہ تھیں۔ جس میں سے ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اب چونکہ ان میں سے سب سے چھوٹی مسجد کے امام ہمارے استاد بھی تھے تو ہم نے نماز کے لیے اسی چھوٹی مسجد کو چُنا۔

اپنے اسی فیصلے کو مدِ نظر رکھ کر ہم نماز کی غرض سے مسجد کے طرف بڑھنے ہی والے تھے کہ ہمیں اپنے انگریزی لباس کو دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ قاری صاحب کی نگاہ مردِ مومن کی طرح اگر مُجھ پر پڑی تو وہ کیا کہیں گے؟ فتویٰ ناسہی مگر اقبال کا وہ شعر جو کے غالباً انھوں نے اسی موقع کے لیے لکھا تھا، کا مصرہ ”تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں“ سُنا کر وہ اپنی ناگواری ہم پر ظاہر کر کے ہمیں شرمندہ ضرور کریں گے۔

اسی احساس کو مدِنظر رکھ کر ہم نے دوسری اور سب سے بڑی جامع مسجد کا رخ کیا۔ اس فیصلے کے فوراً ہمیں دو فائدے نظر آئے۔ ایک تو قاری صاحب کے جذبات کو ہماری شخصیت کو لے کر جو کوئی بھی منفی ٹھیس پہنچنا تھا وہ نہیں پہنچا۔ دوسرا ہمیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں پر بھی یہ ظاہر کرنے میں آسانی ہوئی کہ ہم گناہگار اور بے نمازی سہی، مگر اتنا ایمان ابھی بھی باقی ہے جو ترکِ نمازِ جمعہ والی فہرست میں شامل ہونے سے ہمیں روکتا ہے۔ تاہم ہمیں اقبال کی شاعری سے ناآشنائی، قاری صاحب کی نگاہِ مرد ِ مومن سے اپنی قسمت نہ بدلوانے اور اُن سے اقبال کی شاعری کے صحیح موقع ومحل پر استعمال کی تربیت حاصل نہ کرنے کی محرومیت پر ابھی بھی ملال ہے۔

اس واقعے کے بعد ہم نے اُن لوگون کی فہرست بنانے کا ارادہ کیا جن کے کہنے یا ہمارے بارے میں خبر سننے سے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ تھا۔ ہم نے اس فہرست کو مرتب کرنے کے عمل کو شروع تو کر لیا مگر بڑی جلد ہم پر یہ واضح ہو گیا کہ اس فہرست میں وہ سب لوگ شامل ہیں جنہیں ہم یا ہمارے گھر والے کسی نہ کسی طرح سے جانتے ہیں۔ رستہ دار اور دوست احباب سے لیکر مرغیوں والے قصاب، وہ دودھ والا جس کا نام بھی ہم ان بیس سالوں میں نہ جان سکے مگر جو پھر بھی ہمیں؛ روز کرے بیدار اور محلے کا چوکیدار، گھر کے دونوں اطراف مساجد کے مولوی و قاری صاحبان اور اسٹور والے حافظ برادران، ارشد نائی اور انکے ہمسائے چکی والے بھائی، ملک کریانے والے محمود و ایاز اور سامنے سبزی والا بندہ نواز، سبھی شا مل تھے۔ اگر کوئی شامل نہیں تھا تو وہ کچرے والا، جسے ہم اُس کے اور اپنے بچپن سے کچرا لیتے دیکھ رہے ہیں۔ ابھی بھی جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو وہ جوانی میں بھی بچپن کی طرح اب بھی گھنٹی دینے سے پہلے اپنے گدھے کو روکنے کی غرض سے ہانکتا ہے۔ اِس کے ہانکنے کی آواز کے بعد گھنٹی بجتی ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح وہ نیچی نظروں سے اس کچرے کی ٹوکری کو دیکھتا ہے جس کا وہ منتظِر ہوتا ہے۔ ہمیں نہیں یاد کے اُس نے ٹوکری پہنچانے والے قاصد کو بھی آج تک ٹھیک سے دیکھا ہو۔ بربنا ٴ تہذیب1 اس کا نام بھی ہم نہیں جانتے۔

غرض اِس درویش کو چھوڑ کرسبھی لوگ ہماری فہرست میں شامل تھے۔ مشکل اب اس میں یہ تھی کہ اگر کسی ایک کے جذبات کا احترام کریں تولازماً کسی دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کاخدشہ تھا۔ بات اصل میں یہ تھی کہ ہم اِن لوگوں کی عداوتوں کے بیچ میں پِس کر ہم اپنا گدھا ڈُبوانا نہیں چاہتے۔

یہاں ہماری گدھے سے مراد وہی گدھا ہے جِسے اُس کا مالک اور اُسکا بیٹا لیے کِسی پُل سے گزر رہے تھے۔ ہر راہ گزر کی نصیحت کا لحاظ اور اسُ پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخر تنگ آکر باپ بیٹے نے گدھے کوخود پرسوار کرالیا، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے گدھے نے دریا میں چھلانگ لگائی اور ڈوب گیا۔

پھر اب ہمارے پاس تو ڈبونے کے لیے اپنا گدھا بھی نہیں ہے۔ مگر کبھی کبھی تو لوگوں کی باتوں کے بیچ میں پھنس کر اپنا خود کا گدھا خرید کر ڈبونے کا خیال بھی دل میں آتا ہے۔ مگر پھر مہنگائی کا سوچ کر جوش اور دِل دونوں بیٹھ جاتے ہیں۔

تاہم اس نقطے میں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر جان کی بازی کسی اور نے نہیں بلکہ اُس بے زبان گدھے نے لگائی تھی۔ سوچنے سمجھنے والا انسان ہوتا تو اول چھلانگ ہی نا لگاتا، اور اگر وہ غلطی سے دریا میں گِر جاتا تو پھر شاید جلدی سے اسے تیر کر عبور بھی کر لیتا۔

اب وہ لوگ جو اِس گدھے کی جانثاری سے واقف ہیں تو اُنھیں تو بس اتنا بتانا ہی کافی ہے کہ ہم آپکی خاطر اپنا گدھا ڈبوانا نہیں چاہتے۔ مگر وہ خاص لوگ جنکے ساتھ آپکا تعلق الفت سے بڑھ کر محبت کی سات منرلیں طہ کرتا ہوا عقیدت، عبادت اور جنون سے بھی آگے بڑھ چکا ہو، ان کے لیے گدھے کی قربانی کی داستان کافی نہیں ہے۔ منطقی طور پر تو ایک ہی طریقہ سمجھ میں آتا کہ اُنکی بات سُن کر خاموشی اختیار کرلی جائے کیونکہ بقول صوفیوں اور عاشوقوں کے؛ محبت میں جنون کے بعد پھر انسان فنا ہو جاتا ہے ۔ جسے اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو خاموشی کے علاوہ آپ کا کوئی بھی ردعمل آپکے فنا ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔


  1. بربنا ٴ تہذیب: تہذیب کی بنیاد پر ↩︎

4 Comments

  1. Usama Ashraf December 19, 2024 at 4:18 pm

    Very thoughtful

  2. Muhammad Kashif December 19, 2024 at 4:50 pm

    بہت اعلی تحریر

  3. Anam rafaquat December 19, 2024 at 7:33 pm

    Awlaaa…

  4. Waqas Ahmad December 20, 2024 at 10:02 am

    The way you tried to enlighten how deep is the society involved in our every aspect of life is good.

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *