Baba G – بابا جی

اشفاق احمد صاحب سے جب کسی نے پوچھا کے آپ کے افسانوں میں جو بابا جی ہیں، وہ اصل میں کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کے بابا وہ ہے جو دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرے۔ جو جتنی آسانی پیدا کرے گا وہ اتنا بڑا بابا ہو گا۔

یہ پتہ لگنے کے بعد کچھ ایسا ہی بابا ڈھونڈنے، اور ان سے فیض پانے کا عجیب سا تجسس ذہن میں پیدا ہو گیا۔ بابا جی کا تصور جب ذہن میں آتا ہے تو دِل میں ایک ادب و احترام پیدا ہو جاتا ہے۔ ارسطو کے مجسمے کی مانند ایک دانا شخص کا تصور ذہن میں آتا ہے جو علم وحکمت سے مالا مال اور دنیا کی حوس سے بے نیاز ہو گا۔ بابا جی کی درسگاہ میں طالب علم حقیقت کو تلاش کرنے کی جستجو اور انسانیت کیلئے آسانیاں پیداکرنے کی عظیم جدوجہد کےلیے علم و فن کی تربیت حاصل کریں گے۔ مابعدالطبیعات، منطق، فلسفے اور ادبیات جیسے اور دیگر علوم پر بحث ہوگی۔ ان سے فیض پاکر ہم سکندرِ اعظم کی طرح دنیا میں پھیل جائیں گے مگر سکندر کے برعکس ہم معاشرے اور انسانیت کیلئے امن اور آسانیاں پیدا کریں گے۔ 

 ہماری یہ خواہش ابھی بالغ بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہماری  ملاقات ایک بابا جی سے اسلام آباد کے نئے ہوائی اڈے پر اُس وقت ہوئی جب ہم آخرت سے بے خبر دُنیا کی محبت میں اِس کی سیر کو نکلے، اور اپنا پہلا ٹھکانا ترکی کو بنایا۔

پاکستان میں ہوائی جہاز کا سفر گویا ایسا ہے کے جیسے اکبر بادشاہ کسی زمانے میں اپنے ہاتھی پر سفر کرتا تھا۔ ہوائی سفر تو کیا؛ محض کبھی کسی محفل میں بھی ہوائی اڈے کا ذکر بھی آئے تو ایک عجیب قسم کی مسرت حاصل ہوتی ہے اور جسم میں بجلی کی سی لہر دوڑ جاتی ہے۔ تاہم ہمارے اِس سفر میں مسرت تو ہمارے ساتھ نہ تھی تو ہم نے اپنے دوست سرمد سے کام چلایا اور اس کو ساتھ لیے ہوائی اڈے پہنچے۔

جب ہم ہوائی اڈے کے بیرونِ ملک روانگی کے دروازے پر پہنچے تو دروازے پر لوگوں کے ایک بڑے ہجوم نے ہمارا استقبال کیا۔ اِنہی دنوں کرونا وائرس کی وبا نے بھی شدت اختیار کی ہوئی تھی اور اِسی کے پیش ِ نظر انتظامیہ نے ڈاکٹروں کی سہولت کے لیے صرف ایک ہی دروازہ کھولا تھا تاکہ ملک کے ہونہار جوان ڈاکٹروں کو معاش کے لیے ہسپتالوں کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑیں۔

اِس ایئرپورٹ کا حال ہی میں افتتاح ہوا تھا اور صفائی دیکھ کر ہماری ایمان نصف آسمان کو چھو رہا تھا۔ دروازے سے داخل ہونے کے بعد ہمارے سامان کو چیک کیا گیا جس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے ہمیں آگے بڑھنے کو بولا ۔

ایئرپورٹ پر سکیورٹی اہلکاروں کی واضع کمی نظر آئی ۔ تقربیاََ ہر دو مسافروں پر تین مختلف قسم کےسکیورٹی اداروں کے اہلکار تعینات تھے۔ حالانکہ جہاز پر سوار ہونے تک پانچ مراحل درکار تھے۔ غورکرنے پرہمیں سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں واضع کمی نظر آئی۔ ہمارے اندازے کے مطابق ہر مسافر پر کم سے کم پانچ اہلکار تعینات ہونے چاہیں تا کہ مسافروں کو کسی بھی مرحلے پر کوئی مشکل نہ پیش آئے اور ملک میں بیروزگاری کی شرح میں بھی کمی لائی جا سکے۔ اور ساتھ ہی ساتھ باہر سے آنے والے غیر ملکی لوگ بھی ایئرپورٹ پر اتنی نفری دیکھ کر اس بات کو بھی جان سکیں گے کہ مغربی ممالک کا پاکستان کو لے کر یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ یہاں سیکیورٹی کا کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہے۔ سیکیورٹی کی عدم موجودگی میں جرائم میں اضافہ ہونا بالکل معقول بات ہے اور ایئرپورٹ دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہ تھا کہ اصل میں جرائم کا مرکز یہی ہے۔ 

جہاز پر سوار ہونے کا بورڈینگ پاس ملنے پر ہم امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھے۔ وہاں مسافروں سے زیادہ کاؤنٹر کی اقسام دیکھ کر ہمیں ہندوستان کے ذات پات کا نظام یاد آگیا۔ ضعیف العمر شہری کے ساتھ ساتھ ہر رنگت کے پاسپورٹ اور عہدے کی بنیاد پر تقسیم کی گئی تھی۔ سب سے پہلے ہمیشہ کی طرح تیر کے نشان والی گاڑی اور جاگیرداروں کا اجتمائی کاؤنٹر تھا جو کے مختلف ذاتوں اور نسلوں سے ہوتا ہوا آخر کار ’دل دل پاکستان‘ کاؤنٹر پر ختم ہوتا تھا۔ اسی کاؤنٹر سے ہم بھی دل دل پاکستان گاتے ہوئے ہم  امیگریشن پوائنٹ پر پہنچے۔ 

دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی طرح ہم امیگریشن اہلکار کو بھی یہ بات ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ ہم واقعی ہی میں ترکی کی سیاحت کو جا رہے ہیں۔  امیگریشن اہلکار نے سیرو تفریح  کا سن کر حیرت سے ہمارے چہرے کی طرف دیکھا۔ اِس حیرت کی وجہ پوچھنے پر اُس نے نہایت معصومانہ لہجے میں ہمیں بتایا کہ سفر اصل میں دو طرح کے ہوتے ہیں۔ جوسفر حج وعمرہ یا معاش کے لیے کیا جاتا ہے، بیرونی سفر کہلاتا ہے اور اندرونی سفر وہ انگریزی والا سفر ہے جو حکومت شہریوں کو بڑی باقاعدی سے کرواتی رہتی ہے۔ اب جس سفر کی آپ لوگ بات کر رہے ہیں یہ ہمیں بھی نہیں معلوم۔ آخر ہمارے جوابات سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اہلکار نے ہمیں ہمارے مہر شدہ پاسپورٹ تھما دیئے۔ 

 قریب تھا کہ ہم جہاز کے گیٹ پر پہنچتے کہ اچانک ہمارے سامنے پاسپورٹ چیکنگ کی ایک اور قطار آ گئی۔ اب کی بار قطار کی سربراہی کوئی نوجوان نہیں بلکہ ایک عمر رسیدہ بابا جی کر رہے تھے۔ ہمیں دُور سے ایک سفید داڑھی،  گندمی رنگ اور  ڈھیلی نیم خاکی وردی میں ملبوس بابا جی ناک کی نوک پر باریک چشمےلگائے کھڑے نظر آئے۔ آنکھوں میں سرخی، زندگی کے وسیع تجربے اور سگریٹ کے باعث چہرے پرجھریاں، اور آنکھوں اور ہونٹوں پر سیاہیاں بالکل واضح تھیں۔  چہرے پر اکتاہت اور نفرت کے آثار بھی یکساں نمایاں تھے۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کے وہ پاسپورٹ نہیں بلکہ لوگوں کے چہرے  پڑھ رہے  ہیں ۔ اپنی باری آتے ہی ہم نے باری باری انھیں اپنا پاسپورٹ دیا جو اُنھوں نے اپنے بائیں ہاتھ میں ایسے پکڑا کہ جیسے پاسپورٹ نہیں ہمارا اعمال نامہ ان کے ہاتھ لگ گیا ہو۔ تیز نظروں سے انھوں نے پاسپورٹ کو کھولے بغیر ہم دونوں کو اس طرح گھُورا کہ جیسے دلوں کا حال اور چال چلن، سب جان گئے ہوں ۔ قریب تھا کہ ہم خود ہی اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے، انھوں نے ہمیں الگ  کرکے ایک قریبی دفتر کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا اور کہا  کہ یہاں سے پاسپورٹ چیک کروا کر آئیے۔ ہمیں تعجب تو بہت ہوا کہ آخر کے ہم پچھلے دوگھنٹے سے کیا چیک کروا رہے تھے۔ مگر جس طرح ہماری قوم کا ہر دیانتدار شہری وردی دیکھ کر خود کو مجرم محسوس کرنے لگ جاتا ہے، کچھ اسی طرح کی کیفیت ہمیں بھی محسوس ہوئی اور دل کے ساتھ ساتھ ہم جسم کو بھی لےکر اُس دفتر میں بیٹھ گئے۔

دفتر میں بندہ  آدم کی عدم موجودگی کی بنا پر ہم  پاس رکھے ایک صوفے پر بیٹھ گئے اور اس واقعے کی اصل حقیقت کو جاننے اور بابا جی کی حکمت کو سمجھنے کی جستجو میں خیال کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ تھوڑا غورکر نے پر معلوم ہوا کہ باباجی کا مقصد حسد کا مظاہرہ ہماری تذلیل کی صورت میں کرنا، اپنی اہمیت کی دھاک جمانا یا اپنی حالت کا غصہ ہم پر اتارنا نہیں تھا بلکہ انھیں جب یہ محسوس ہوا کے اس پُر فتن دور میں ہم بیرونِ ملک سیر کی غرض سے جارہے ہیں تو انھوں نے بھلائی کی نیت سے ہمیں ایک بار پھر اپنے اِس فیصلےکو ترک کر نے کا موقع دیا تھا۔ ہمیں بھی یہ سوچ کر بہت شرم محسوس ہوئی کہ ہمیں اس عمر میں بابا جی کی طرح مشقت کرنی چاہیے اور سیاحت کا حق طرف انکے پاس ہونا چاہئے۔ تاہم اس سے پہلے کہ ہم جذبات میں غالب آکر اپنا ٹکٹ باباجی کو دیتے اور اُن سے دعائیں لیکر انھیں اپنی جگہ جہاز میں رخصت کرتے، ایک سکیورٹی اہلکار نے ہمیں دفتر میں تنہا دیکھا تو ہمارے پاس آیا اور ہمیں گیٹ کی طرف بڑھنے کا بول کر چلا گیا۔ 

آخر کار ہم اطمینان کے سانس کے ساتھ اُٹھے اور گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔اس واقعے اور بابا جی سے فیض پانے کے بعد ہمارے مشاہدے میں اس بات کا اضافہ ہوا کہ بابوں کی اقسام اصل میں دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ ہے جو دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرے، اور دوسرا وہ جو دوسروں کے لیے مشکلات  پیدا کرے۔ اور پاکستان میں بابا وہ ہے جو دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرے۔ جو جتنی زیادہ مشکلات پیدا کرے گا وہ اتنا ہی بڑا بابا ہو گا۔ اشفاق احمد شاید کسی اور معاشرے کے باباجی کی بات کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس عزَم  کے ساتھ  جہاز پر سوار ہو گئے کہ یہاں نہ سہی، ترکی میں شاید ہمیں اشفاق احمد والے باباجی مل جائیں۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *